”تحریکی“ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہیں؟“

news-1429135701-9549

ملاقات کے وقت دو اشخاص ہاتھ سے ہاتھ مِلائیں تو اُسے ”مصافحہ“ کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سماجی طور پر کمتر ہو تو وہ ”بہتر“ شخص کے ایک ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیتا ہے۔ جیسے پِیروں سے اُن کے مُرید اور لیڈروں سے اُن کے کارکن مصافحہ کرتے ہیں۔

مصافحہ‘ ہاتھ اور دستانے!:

14اپریل کو جرمنی کے شہر برلن میں بھارتی وزیرِاعظم شری نریندر مودی کو اُس وقت کافی خفت اُٹھانا پڑی‘ جب انہوں نے جرمنی کی چانسلر “Angela Merkel” کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد اُن سے مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن وہ شری مودی اور اُن کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرکے چلی گئیں ۔اگر مودی صاحب بھارتی کلچر کے مطابق اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر جرمن چانسلر کو ”نمستے“ بول دیتے تو اُنہیں یہ دِن تو نہ دیکھنا پڑتا۔ دوسرا واقعہ لاہور ہائی کورٹ کے وُکلاءکی تقریب میں ہُوا جب ایک خاتون وکیل نے چیف جسٹس جناب منظور احمد ملک سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی لیکن اُس نے چیف جسٹس صاحب کے چہرے پر خفگی کے اثرات دیکھ کر ”سوری“ کہا اور اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لِیا۔

قائم مقام گورنر پنجاب رانا محمد اقبال کھرے راجپوت ہیں لیکن انہوں نے لاہور کی ایک تقریب میں وزیِر اعظم میاں نواز شریف کے ہاتھ چُوم لئے تھے اور میاں صاحب نے بُرا بھی نہیں منایا تھا ۔ پھر مجھ سے راجپوت برادری کے کئی لوگوں نے فون پر پوچھا تھا کہ ”یہ رانا محمد اقبال صاحب نے کیا کِیا؟“ مَیں نے کہا کہ ”مَیں کیا کروں؟۔ مَیں نے تو خود اپنے دادا جی، دادی اماں، والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ہاتھ چومے تھے۔ مجھے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم اور دوسری ملکاﺅں کی یہ عادت بہت پسند ہے کہ مختلف تقاریب میں ہر ایک نے اپنے دونوں ہاتھوں پر دستانے پہنے ہوتے ہیں۔ وہ واقعہ صِرف ایک بار ہُوا تھا کہ جب سارے شہر نے اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن رکھے تھے اور شاعر نے بے بس ہو کر کہا تھا کہ

”مَیں کِس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

تمام شہر نے پہنے ہُوئے ہیں دستانے!“

عابد علی شیر آیا!:

”شیر“ مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان ہے ”خنجر ہلال کا“ ہوتا تو اُسے ” قومی نشان“ کہا جاتا۔ اب ہوتا یُوں ہے کہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جب کبھی کسی عام جلسے یا مسلم لیگ کی کسی تقریب میں رونق افروز ہوتے ہیں تو یہ نعرہ ضرور لگتا ہے کہ

”دیکھو ! دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا“

پھر جلسہ گاہ میں لوگ رقص کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں عِلم ہے کہ یہ شیر پھاڑ کر کھانے والا اور جنگل کا بادشاہ نہیں بلکہ جمہوری وزیرِ اعظم /وزیرِ اعلیٰ ہے“ خبر ہے کہ ”پانی و بجلی کے وزیرِ مملکت عابد علی شیر نے گجرات میں کھلی کچہری لگائی اور جب لوڈ شیڈنگ کا شکار صارفِین نے اُن سے اپنی شکایات کا ازالہ کرنے کی اپیل کی تو عابد شیر علی صاحب نے جن کے ساتھ بعض ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی تشریف فرما تھے۔ اُن کا مذاق اڑایا اور قہقہے لگائے اور بقول خبر نگارموصوف دانت بھی نکالتے رہے“۔ کیا دانت لوڈشیڈنگ صارفین بجلی کے تھے۔ ”شاعرِ سیاست“ فیصل آباد کے صارفین بجلی کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہتے ہیں۔

‘’لاکے بڑی دیر آیا

اِک واری فیر آیا

لوڈشیڈنگ کرن والا

عابد علی شیر آیا“

”تحریکی“ ارکانِ پنجابِ اسمبلی کی تنخواہیں؟:

اُسے خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی فیاضی کہیں یا پنجاب اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی ”کارستانی“ کہ سات ماہ تک اسلام آباد میں ”دھرنا میلہ“ سجانے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے 29 ارکانِ پنجاب اسمبلی نے سرکاری خزانے سے اپنے واجبات سمیت اپنی سات ماہ کی تنخواہیں وصول کر لی ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید سمیت اسمبلی کے ایوان سے غیر حاضر رہنے والے سب کے سب ارکان نے ”مراعات اور ٹی اے ڈی اے“ لینے سے انکار کر دیا ہے“۔ کتنے مخلص اور محب وطن ہیں یہ ارکانِ اسمبلی وہ اگر یہ فراخدلی نہ بھی دکھاتے تو ان کے حلقہ ہائے انتخاب کے مسائل زدہ ووٹر صاحبان و صاحبات اُن کا کیا کر لیتے؟۔

لفظ تنخواہ ”تن“ (جسم) اور ”خواہ“ (طلب) کا مرکب ہے۔ یعنی مشاہرہ تنخواہ پانے یا وصول کرنے والے کو نوکر کہا جاتا ہے۔ صدرِ مملکت /وزیرِاعظم سے لے کر 8 ہزار تنخواہ وصول کرنے والا بھی ریاستِ پاکستان کا نوکر ہے۔ آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کا وظیفہ مقرر کیا تو مرزا غالب نے خُود سے مخاطب ہو کر کہا کہ

”غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دُعا!

وہ دِن گئے جو کہتے تھے‘ نوکر نہیں ہُوں مَیں!“

تنخواہ اور وظیفہ میں فرق یہ ہے کہ ”وظیفہ“ کام نہ کرنے والوں کو دِیا جاتا ہے۔ خواہ وہ گھر بیٹھے رہیں یا کہیں دھرنا دینے چلے جائیں۔ میاں شہباز شریف اپنی وزارتِ علّیہ کے دوران خود کو ”خادمِ اعلیٰ کہتے تھے۔ لیکن مئی 2011 ءکے عام انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ منتخب ہُوئے تو کہا کہ ”اب مجھے خادمِ اعلیٰ کے بجائے ”نوکرِ اعلیٰ“ کہا اور لِکھا جائے“ یعنی۔

”آکھونی مَینوں دِھیدو رانجھا‘ ہِیر نہ آکھے کوئی!“

پنجاب کا ایک اکھان ہے کہ ”نوکری کیہہ تے نخرا کیہہ؟“ لیکن یہ اکھان بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں پر صادق نہیں آتا۔ یہ اکھان تو عام نوکری پیشہ لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنے مالکان کی وفاداری سے سرشار ہو کر گلی کوچوں میں شور مچائے پھرتے ہیں کہ

”نوکری“ دی ہُوئی اُسی کی تھی!

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہُوا؟“

استاد شاعر جناب اکبر الہ آبادی نے اپنے دَور کے سرکاری ملازمین کی حمایت میں بالائی آمدن (رشوت) کو صنعت و حرفت قرار دیتے ہُوئے کہا تھا

”کچھ صنعت و حرِفت پہ بھی لازم ہے توجّہ

آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک؟“

سابق وفاقی وزیرِ امور کشمیر وغیرہ چودھری محمد برجیس طاہر کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کِیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”مَیں گورنر شپ کی تنخواہ نہیں لُوں گا“۔ میرے خواب میں آکر علّامہ القادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست ”بابا ٹلّ“ نے مجھ سے کہا تھا کہ ”اگر آپ وزیرِ اعظم نواز شریف سے کہہ کر ”صدرِ سخن ور“ جناب ممنون حسین کی جگہ مجھے صدرِ مملکت بنوا دیں تو مَیں تنخواہ نہیں لُوں گا۔ ایوانِ صدر کے سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کروں گا اور ہر ماہ وزیرِاعظم کے ”میرے یارو‘ مُلک سنوارو“ پروگرام میں جمع کراﺅں گا“۔ مَیں نے بابا ٹلّ سے کہا کہ

”میاں نواز شریف ہُوراں تک میری رسائی کوئی ناں!“

تو بابا ٹل جی علّامہ القادری کی عیادت کے لئے کینیڈا چلے گئے۔ پنجاب اسمبلی سے استعفیٰ دینے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے غیر حاضر ارکان نے اپنی سات ماہ کی تنخواہ وصول کر لی ہے۔ اب وہ دِن دُور نہیں کہ جناب عمران خان سمیت اُن کے ساتھی ارکانِ اسمبلی بھی یہ ”مِٹھّا گھُٹ“ بھر لیں گے؟۔ کیا فرماتے ہیں عُلمائے دِین و سیاست بیچ اِس مسئلے کے کہ غیر حاضر ارکان اسمبلی کی تنخواہیں جائز ہیں یا نہیں؟۔